کوئی بھی اور انصاف پسند اگر اس صورت حال پر سوال پوچھتا تو وہ کچھ یوں ہوتا:”فلسطینیوں پر مظالم کا کب خاتمہ ہوگا؟”
گذشتہ چند سال کے دوران نیتن یاہو کی حکومت انسانیت کے تمام بنیادی اصول وقوانین کو بھلا بیٹھی ہے اور وہ مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں عوام پر بدترین جبر وتشدد کی پالیسی کو بروئے کار لارہی ہے۔
نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں کی قیادت میں اسرائیلی حکومت نے فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے،زندہ جلایا ہے،شہریوں پر تشدد کیا ہے اور فلسطینی عوام سے غیر انسانی سلوک کیا ہے۔اس بدترین مایوسی کے عالم میں لوگ تشدد کی جانب مائل ہوئے ہیں۔ایک یہودی صومعے پر حالیہ حملہ فلسطینیوں کی اسی مایوسی کا مظہر تھا اور انھوں نے خود پر اور اپنے بچوں پر سفاکانہ حملوں کا بدلہ چکانے کے لیے یہ انتقامی اقدام کیا تھا۔
اب یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ تشدد کون چاہتا ہے؟یہ نیتن یاہو کی حکومت ہے جو بڑے منظم انداز میں مقبوضہ سرزمین کے عوام کو مایوسی میں کیے جانے والے اقدامات پر مجبور کر رہی ہے تا کہ وہ بآسانی بیوقوف بنائے جانے والے امریکی عوام کو یہ باور کراسکے کہ اسرائیل جو بھی اقدامات کر رہا ہے ، وہ دراصل اپنے دفاع میں کر رہا ہے۔
نیتن یاہو یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ایپک اور دوسری اسرائیلی نواز لابیاں مشرق وسطیٰ میں امریکا کی خارجہ پالیسی کا تعیّن کرتی ہیں۔وہ اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ امریکی ارکان کانگریس کی اکثریت کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور وہ کوئی ایک لفظ بھی ادھر سے ادھر نہیں کہتے ہیں۔وہی دراصل ان کے حامی اور مؤید ہوتے ہیں۔
یہ ایک انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ امریکا ایسی طاقت ایک روگ ریاست اسرائِیل کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔اس ریاست نے اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کو پامال کیا ہے اور امریکا کی مدد سے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں جبرواستبداد کو پھیلایا ہے۔اسرائیل کو اس جبرواستبداد سے رکوانے کے لیے کوئی بین الاقوامی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔
عربوں کی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان قیام امن کی کوششیں اب پس منظر میں چلی گئی ہیں،اسرائیلیوں نے تاریخ کو گہنانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے پاس 2002ء میں سعودی عرب کے اس وقت ولی عہد اور اب شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی جانب سے پیش کردہ عرب امن منصوبے کے مطابق عرب دنیا کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا بہترین موقع تھا۔
بدقسمتی سے انھوں نے اس منصوبے کو پیش کیے جانے کے اگلے روز ہی رام اللہ میں مرحوم یاسرعرفات کے ہیڈکوارٹرز پر حملے سے مسترد کردیا تھا۔اب امن عمل مردہ ہوچکا ہے۔نیتن یاہو بڑے منظم انداز میں اور خاموشی سے سیکڑوں فلسطینیوں کو قتل کررہے ہیں۔
چند ایک اسرائیلی مرتے ہیں تو فاکس اور دوسرے ٹیلی ویژن چینل اُلو کی طرح واویلا شروع کردیتے ہیں:”ایک اسرائیلی ماراگیا”۔ہم ایک طویل عرصے سے یہی شوروغوغا سن رہے ہیں مگر امریکا نے ہمیشہ فلسطینیوں کے ساتھ جھوٹے وعدے کیے ہیں۔
امریکی حکومت اپنے دعوے کے بموجب کوئی دیانت دار ثالث ثابت نہیں ہوئی ہے۔اس صورت حال میں فلسطینیوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے کہ وہ جوابی اقدام کریں اور جبرواستبداد کے حامل قابضین کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔وہی قابضین جو ان کی نسل کشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور ان کے وجود کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن فلسطینی موجود رہیں گے۔انھیں ہراساں کرنے کے حربے اور فوجی کارروائیاں بزدل نہیں بنا سکتی ہیں یا اسرائیلی ناانصافیوں اور جبرواستبداد کے خاتمے کے لیے ان کی آوازوں کو خاموش نہیں کرا سکتی ہیں۔