رپورٹ کے مطابق یہودی شدت پسندوں کی تنظیم’’ طلباء برائے ہیکل سلیمانی‘‘ کی جانب سے اسرائیل کے انسپکٹر جنرل پولیس ’’رونی الشیخ‘‘ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کے اندر قبۃ الصخرہ کے مقام پر بنائی گئی پولیس چوکی پر اسرائیل کا پرچم لہرائیں۔
دوسری جانب اسرائیل کے ایک انتہا پسند رکن ’’زلان سموٹریز‘‘ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قبۃ الصخرہ سمیت مسجد اقصیٰ کے تمام مقامات پر یہودیوں کو اپنے مذہب کے مطابق نماز کی ادائیگی کی اجازت مہیا کرے۔ مسٹر سموٹریز کا تعلق شدت پسند مذہبی نظریات رکھنے والی سیاسی جماعت ’’جیوش ہوم‘‘ سے ہے۔ اس جماعت سے وابستہ سیاست دان فلسطینیوں کے خلاف ہمیشہ زہر اگلتے اور قبلہ اول پرقبضے کے لیے قانون سازی کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ’’طلباء برائے ہیکل‘‘ نامی گروپ نے اسرائیلی انسپکٹر جنرل پولیس کو ایک مکتوب ارسال کیا ہے جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کے صحت میں قبۃ الصخرۃ سے متصل قائم کردہ چوکی پر اسرائیل کا قومی پرچم لہرانے کی اجازت فراہم کرے۔
مکتوب میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے ریاستی قانون کے تحت تمام سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے دفاتر پ قومی پرچم لہرایا جانا ضروری ہے مگر مسجد اقصیٰ کے صحن میں قائم کردہ اسرائیلی پولیس چوکی پر اسرائیلی پرچم نہیں لہرایا گیا ہے۔ قومی پرچم نہ لہرانا بجائے خود قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پولیس چوکی پر فوری طورپر قومی پرچم لہرایا جائے۔
ذرائع کے مطابق اسرائیلی پولیس کی جانب سے مکتوب کا جواب دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے اندر اسرائیل کا قومی پرچم لہرانا نہایت حساس معاملہ ہے تاہم پولیس اس کے حل کے لیے مختلف پہلوؤں پر غور کررہی ہے۔
ادھر شدت پسند رکن پارلیمنٹ سموٹریز نے پارلیمنٹ میں ایک نیا مسودہ قانون جمع کرایا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت یہودیوں کو مسجد اقصیٰ کے تمام مقامات پر اوقات کی قید کے بغیر مذہبی رسومات اور یہودی مذہبی تعلیمات کے مطابق نماز کی ادائیگی کی اجازت مہیا کرے۔ مجوزہ مسودہ قانون پر رکن کنیسٹ چولی معلم رفائیلی، نیسن سلومیانسکی، میکی زوھار اورن حزان اور نیتن یاھو کی لیکوڈ پارٹی کے ابراہام نیگوسا کے دستخط ثبت ہیں۔