رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیلی محکمہ قانون کی جانب سے عارضی طورپر کئی این جی اوز پرپابندیاں عائد کی ہیں اور ساتھ ہی ’’شاکیڈ‘‘ قانون کے تحت پارلیمنٹ میں ایک نیا قانون منظور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے جن کی آمد کا 50 فی صد یورپی ملکوں یا کسی بھی دوسرے ملک فنڈز حاصل کرتی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نئے قانون کے تحت این جی اوز کو پابند کیا جا رہا ہے کہ وہ جس ملک سے فنڈز حاصل کرتے ہیں اس کی تمام تفصیلات اور حکومت کی طرف سے لائسنس کو اپنے پاس رکھیں۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ کی جانب سے غیرملکی فنڈز پر چلنے والی این جی اوز کے نمائندگان کو خصوصی کارڈز جاری کرے گی اور وہ کارڈز انہیں ہمہ وقت اپنے پاس رکھنے ہوں گے۔ تمام این جی اوز اپنی آمدن کے ذرائع کے بارے میں پارلیمنٹ کو آگاہ کرنے کی پابند ہوں گی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور پارلیمنٹ کو آمدن کے ذرائع ظاہر نہ کرنے والی این جی اوز کو 29 ہزار شیکل تک جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔ امریکی کرنسی میں یہ رقم سات ہزار ڈالر سے زیادہ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی خاتون وزیرقانون نے پارلیمنٹ میں یہ قانون پیش کیا ہے جس تمام جماعتوں کی حمایت حاصل ہے تام یورپی یونین نے اسرائیلی حکومت کے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔
صہیونی حکام کی جانب سے کہا گیاہے کہ تل ابیب نے این جی اوز پرپابندیاں اس لیے لگائی ہیں تاکہ کسی تنظیم کے ذریعے فلسطینی مزاحمت کاروں تک امداد کی فراہمی کو ناممکن بنایا جاسکے۔پابندیوں کی فہرست میں جو تنظیمیں شامل ہیں ان میں سے بیشتر اسرائیل کے زیرقبضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل ہی کی نمائندگی کرتی ہیں۔