رپورٹ کے مطابق چند روز پیشتر مقبوضہ مغربی کنارے کے وسطی شہر رام اللہ میں البیرہ کے مقام پرفلسطینیوں کی دو الگ الگ ریلیوں پر فلسطینی اتھارٹی کی پولیس نے حملہ کیا اور پرامن فلسطینی ریلیوں کو منتشر کرکے اسرائیل کو یہ پیغام دیا گیا کہ عباس ملیشیا بھی تحریک انتفاضہ کچلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
فلسطینی ریلیوں پر عباس ملیشیا کا حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اسرائیلی اخبارات نے یہ خبر شائع کی تھی کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر تل ابیب حتمی مذاکرات کے لیے تیار ہو تو فلسطین میں تحریک انتفاضہ کچلنے میں اس کی مدد کی جاسکتی ہے۔
اس خبر کی فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے جس سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ تحریک انتفاضہ کی قیمت پر مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
رپورٹ کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کےایک مقرب ذرائع کا کہنا ہے کہ رام اللہ اور تل ابیب کے درمیان رابطوں کی بحالی کی کوششیں جاری ہیں۔ تاہم اسرائیلی حکام نے اعلیٰ سطح پرسیاسی رابطے بحال کرنے کی تجویز مسترد کردی ہے۔
ذرائع کاکہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے فلسطینی اتھارٹی کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ غرب اردن اور بیت المقدس میں جاری مزاحمت’’دہشت گردی‘‘ ہے اور فلسطینی اتھارٹی کو اسے روکنے کے لیے غیر مشروط طورپر اسرائیل کے ساتھ دست تعاون بڑھانا چاہیے۔
رپورٹر نے ذرائع کے حوالے سے یہ خبر شائع کی تھی کہ فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے سامنے مذاکرات کی بحالی کے لیے کچھ شرائط رکھی ہیں۔ ان میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ رام اللہ اتھارٹی غرب اردن میں جاری تحریک انتفاضہ ختم کرانے کے لیے اس شرط پر تیار ہے اگر اسرائیل مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے بامقصد بات چیت کے لیے آمادی کا اعلان کرے۔ دیگر شرائط میں کچھ سابقہ شرائط بھی شامل ہیں۔ جن میں فلسطینی عرب شہروں میں یہودی آباد کاری کی روک تھام، اسرائیل کا سنہ 1967 ء سے پہلے والی پوزیشن پر واپس جانا اور سب سے پرانے 36 فلسطینی قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہیں۔
رپورٹ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی ذہنی طورپر اسرائیل سے فلسطینی تحریک انتفاضہ کی قیمت پر مذاکرات کی بحالی کے لیے تیار ہے۔ اگر اسرائیل مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کرتا ہے تو فلسطینی اتھارٹی غرب اردن میں جاری کشیدگی کی روک تھام کے لیے طاقت کا بھرپور استعمال کرسکتی ہے۔