اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے کہا ہے کہ صہیونی ریاست سے مذاکرات وقت کا ضیاع ہیں۔ فلسطین کی آزادی مذاکرات سے نہیں بلکہ یہ مسلح جدوجہد سے ہی ممکن ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرعالمی برادری غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم نہیں کراسکتی تو وہ فلسطین کیا آزاد کرائےگی۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس رہ نما خالد مشعل نے ان خیالات کا اظہار ملائیشیا کے دورے کے دوران اسلامی یونیورسٹی کولالمپور میں طلباء کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب میں کیا۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم کرنے، فلسطین میں یہودی آباد کاری روکنے اور فلسطینی مقدسات کے تحفظ کے حوالے سےاپنی ذمہ داریاں پوری۔
خالد مشعل نے افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ بعض عرب ممالک بھی غزہ کی پٹی کے محاصرے میں ملوث ہیں۔ انہوں نے ملایشیا کے وزیراعظم نجیب عبدالرزاق کے گذشتہ برس دورہ غزہ کو ایک مثال قرار دیا اور کہا کہ پوری مسلم دنیا کے وزرائے اعظم اورحکمراں قیادت یہی طرزعمل اختیار کرے توغزہ کا محاصرہ توڑنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
حماس رہ نما کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی کے عوام کا صبرو استقامت کو توڑنا اسرائیل کے بس کی بات نہیں ہے۔ تاہم محصورین غزہ کی مدد کے لیے عالمی امدادی وفود کی آمد کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ جس کے بارے میں پوری دنیا سمجھتی ہے کہ ایک ایسا شہر ہے جو بنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہے۔ ان تمام بڑے معاشی مسائل کے باوجود غزہ کے عوام نے تین سال میں دو جنگیں برادشت کیں اور دشمن کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔ ہمیں ان جنگوں نے یہ سبق ملاہے اپنے دفاع کے لیے ہرممکن سامان جمع کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے کیونکہ مزاحمت ہی اپنے دفاع کا ذریعہ ہے۔
خالد مشعل نے کہا کہ فلسطینی عوام اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی یہ جدوجہد صرف ایک قابض ریاست کے خلاف اپنے ہی ملک کے اندرتک محدود ہے۔ لیکن دشمن ہمیں پوری دنیا میں کہیں اور کسی بھی جگہ نشانہ بنا سکتا ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ فلسطینی سپوتوں کو فلسطین سے باہر قاتلانہ حملوں میں شہید کیا گیا۔
خالد مشعل کا کہنا تھا کہ فلسطین صرف مسلح مزاحمت سے آزاد ہوگا، مذاکرات اس کا کوئی متبادلہ راستہ نہیں ہوسکتے ہیں۔ یہ وقت کا ضیاع ہے۔ اسرائیل مذکرات کے ذریعے وقت حاصل کرکے فلسطینی شہروں مغربی کنارے اور بیت المقدس میں یہودی توسیع پسندی کے پروگرام پر عمل کررہا ہے۔